Wednesday 16 July 2014

کاش اقوامِ عالم موت کی دستک سُن سکیں-


ہم مسلمان بہت سادہ ہیں- کُرّہء ارض کے سینے پر مونگ دلتی یہودی لعنت کے ہاتھوں نہتّے فلسطینیوں کی موجودہ شہادت کو "یہودیت اور اِسلام" کا جھگڑا قرار دے کرہم پوُری دنیا کو اُس کی انسانی اور انسانیت پر مبنی تمام تر اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں سے پروانہء آزادی بخش رہے ہیں- ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل اور فلسطین میں کوئی تقابُل اور موازنہ نہیں ہے- غزہ پر موجودہ اسرائیلی حملے سرے سے کوئ جنگ نہیں- یہ دو ہم پلہ ملکوں کی لڑائی نہیں،انسانوں کے رُوپ میں چُھپے حد درجہ مسلح، طاقتور اور خونخوار اسرائیلی بھیڑیوں کے ہاتھوں دوسرے مُٹھی بھر اورتقریبا" نہتّے معصوم انسانوں کے خلاف جن کا ابتدائی جرم یہ ہے کہ وہ فلسطینی ہیں، ایک کُھلی دہشت گردی، بے گُناہ فلسطینیوں کا قتلِ عام اور اُن کی سوچی سمجھی نسل کُشی ہے- یہ جُرم انسانوں اور انسانیت کے خلاف کیا جانےوالا ایسا جُرم ہے جس پر صرف اسرائیل کا نہیں تمام اقوامِ عالم کا گریبان پکڑا جانا چاہیئے-  

 یہودی صرف اسلام دشمن نہیں وہ حقیقت میں انسانیت دشمن ھے- یہودی اپنی لڑائی شروع چاہے جہاں سے کرے، اُس کے مشن کا اختتام ہرغیر یہودی کے خاتمے میں پوشیدہ ہے- اقوامِ عالم نے آس حقیقت کو مان لینے میں تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا لیکن جرمن قوم کے ایک ہر طرح سے مصلحت نا آشنا لیڈر ایڈولف ہٹلر نے نہ صرف اس حقیقت کا ادراک کیا بلکہ انسان اور انسانیت دشمنی کے غلیظ جُرم کی سزا کے طور پر یہودیوں کی بھرپور نسل کُشی کا آغازبھی کر دیا- تاریخ گواہ ہے کہ اگر ہٹلر اپنے دستِ سزا و قضا کو نہ روکتا تو آج روۓ زمین پر یہودی اور یہودیت کا نام و نشان تک نہ ھوتا-

کیا ہٹلر مسلمان تھا؟ کیا اُس کی جانِب سے یہودیوں کے خلاف برپا کیا جانے والا طوفانِ آہن و آتش اور اُن کو بے نام و نشان کردینے والی خوں آشامیاں "یہودیت اور اسلام" کی لڑائی کا حصّہ تھیں؟ کاش ہٹلر اپنا کام مکمّل کر دیتا اور جو سوچا    
تھا اُسے پُورا کر دیتا تو آج ساری دنیا اور پورا عالمِ اسلام یہودی فتنے سے نجات پا چُکا ہوتا-

 یہ حقیقت کہ یہودی ہر غیر یہودی کا دُشمن ہے، ہٹلر نے نہ صرف جان لی بلکہ اِس کے خلاف صف آرا بھی ہو گیا لیکن باقی غیر مسلم اقوامِ عالم اس حقیقت سے جانتے بّوجھتے انجان بنی رہیں- مقامِ افسوس یہ ہے کہ مُسلم اُمہ "یہودی اور یہودیت شناسی" کے اس تاریخی مقام اور موڑ پر پہونچ جانے کے باوجود خود کو "مذہبیت" کی تنگ ناۓ سے نکال کر "انسانیت" کے وسیع تر دھارے میں شامل کرنے میں پس و پیش اور تامّل سے کام لیتی رہی اور اس رد ّوقدح میں یہ اٹل  حقیقت تک فراموش کربیٹھی کہ اسلام اور انسانیت ایک دوسرے سے الگ الگ نہیں بلکہ خود انسانیت عین اسلام ہے-

ہم مسلمان، خاص طور پر پاکستانی مسلمان، آج بھی اس لڑائی کے اسباب اور مقاصد کو اُس کے منطقی انجام تک پہونچانے کے بجاۓ خود اپنے ہی مسلمان ممالک کے سربراہوں پر تلوار تانے بیٹھے ہیں- کوئی کہتا ہے اسرائیل کے خلاف اعلانِ جنگ کردو، کسی کو شکوہ ہے کہ میزائیل کیوں نہیں برساتے اور کوئی مردانگی اور غیرتِ اسلامی کے فقدان کا طعنہ دیتا ہے-  ہم صرف اپنے ہی بڑوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالتے ہیں- اُن کا گلا کیوں نہیں پکڑتے جو دُنیا بھر میں امنِ عالم کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں- انسانی حقوق کی پاسداری پر بات کرتے اُن کے گلے خشک نہیں ہوتے- اقوامِ متحدہ کے  CHARTER OF HUMAN RIGHTS پر گھنٹوں تقریریں کرتے ہیں اور  WAR ON TERRORکی آڑ میں ہزاروں میل بلکہ سات سمندر پار جا کر نہ صرف فوجی جارحیت کرتے ہیں بلکہ ڈرون حملوں کے ذریعے بیگناہ عورتوں اور معصوم بچوں کا قتلِ عام بھی کرتے ہیں- ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عالمی ضمیر کو جھنجھوڑیں اور پوری دنیا سے سوال کریں کہ آنکھیں مُوندنے کا یہ عمل کب تک؟ پوری دنیا کو  باور کرائیں کہ وہ مان لے کہ اسرائیل کی موجودہ لڑائی "فلسطینی مسلمانوں" سے نہیں "صرف فلسطینیوں" سے ہے یا دوسرے لفظوں میں فلسطین میں مقیم "انسانوں" سے-  اُن انسانوں سے جن کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ زمین کے اُس خطّے کے رہائیشی ہیں جس پر اسرائیل کا قیام مقصود ہے- اگر یہ انسان مسلمان نہیں بھی ہوتے یا کسی اورغیر یہودی مذہب سے ہوتے تو بھی اُن کے ساتھ یہی سلُوک کیا جاتا اگر وہ اس زمین کو خالی کرنے سے انکاری ہوتے-

مناسب طرزِعمل یہی ہے کہ ہم دنیا کی ساری جغرافیائی اورمذہبی اقوام کا ضمیر جھنجھوڑیں اور اُن سے کہیں کہ اب وہ بلّی اور کبُوتر کا یہ کھیل بند کریں اور اس حقیقت کا اعتراف کرلیں کہ یہودی صرف مسلمانوں کا نہیں، ہر غیر یہودی کا دُشمن ہے اور اس طرح وہ حقیقتا" انسانیت کا دُشمن ہے-

کاش دنیا یہ مان لے کہ آج اسے پھرایک ہٹلر کی ضرورت ہے جو اسے یہودی فتنے سے ہمیشہ کیلیے نجات دلادے ورنہ وہ دن آ ہی جاۓ گا جب یہودیوں کا سیلِ بلا روۓ زمین کے آخری غیر یہودی کے دروازے پر موت کی دستک دے رہا ہوگا-  


Tuesday 15 July 2014

وہ اپنی خُو نہ چھوڑینگے ھم اپنی وضع کیوں بدلیں

 غزہ میں شہید ہونیوالے بچّے یقینا" معصوم اور بے قصور تھے- مفادات کی جنگ میں ایک کا ہیرو دوسرے کا مجرم ہوتا ہے- دُرست- لیکن یہ سارے کے سارے  بچے ایسے نام نہاد مجرموں کی اولاد تک یقینا" نہیں ہونگے پھر انہیں کیوں شہید کیا گیا؟ اسی قتلِ بے سبب کی وجہ سے آج ہم سب غمزدہ ہیں اور دامے، درمے، سخنے، اُن سے اِظہارِ یک جہتی کر رہے ھیں-

اسی طرح کے واقعات ہمارے ملک میں بھی پیش آتے رھے ھیں- ہمارے صوبہ کے۔ پی۔ کے (KPK) میں یہودی پرست بلکہ یہودیت کے سرپرستِ اعلیٰ امریکہ کے ڈرون حملوں میں ہزاروں معصوم بچّے شہید ہوۓ- غزہ کے شہداؑ سے کہیں زیادہ- یہ سارے بچّے بھی تونام نہاد دہشتگردوں کی اولاد نہیں ھونگے- ان کیلیے دنیا نے کتنے آنسو بہاۓ؟ برادر اسلامی ممالک سے یکجہتی کی کتنی آوازیں اٹھیں؟ خود ہمارے فلسطینی بھائیوں کی جانب سے ان کی کتنی اشک شوئ کی گئ؟ ہر شہید پر ہم آنسو بہائیں، ہر مزار پر ہم پھُول چڑھائیں اور ہر قبر پر ہم دیۓ جلائیں لیکن خود ہمارے لیے؟ بقولِ شاعر؎

بر مزارِماغریباں، نے چراغے نے گُلے

                  

"پہلی جنگ عظیم کی ١٠٠ویں برسی پر "بغیر جنگ کا ایک سال

کیا ہم پہلی جنگ عظیم کی ١٠٠ویں برسی ٢٨ جولائی ٢٠١٤ کے موقع پر دنیا کو "بغیر جنگ کا ایک سال" منا  کر امن کا ایک  بیش بہا تحفہ دے سکتے ہیں؟

                 

عالمِ اسلام، فلسطین۔ کشمیر اور پاکستان

عزیز فلسطینی اور عرب بھائ بہنو!

ہم ہمیشہ کی طرح مصیبت کی اِس گھڑی میں بھی تمھارے ساتھ ہیں-

کیونکہ

تُم نے ہمیں بھُلادیا ہم نہ تُمہیں بھُلاسکے-

منجانب

کشمیری اور پاکستانی شہیدوں کے وُرثاء


ایک بڑے اور پائیدار امن کا قیام ایک بڑی اور فیصلہ کن جنگ کے بغیر ناممکن ہے

ایک بڑے اور پائیدار امن کا  قیام ایک بڑی اور فیصلہ کن جنگ کے بغیر ناممکن ہے - ایسی جنگ جو ہمیں جنگ جُو افراد سے نہیں "جنگ جُو سوچ " کے خلاف لڑنی پڑیگی- کیا  آپ اتفاق کرتے ہیں اس بات سے ؟ 

LET US GIVE A GIFT OF PEACE TO WORLD BY OBSERVING A "NO WAR YEAR" ON 100th ANNIVERSARY OF WORLD WAR-I

On 28th July 2014, we are completing 100 years since the initiation of World War-I.

Humanity was still licking its wounds caused by World War-I when, just within 20 years, it experienced another great massacre in 1939 in the shape of World War-II. The period from 1939 to 1945 is full of such dreadful events that still don’t allow humanity to feel any pride on itself rather badly ashamed of those. Millions were dead and far more than them were alive but worse than those who died, being injured, assaulted, raped and even “nuclearised”.

Hiroshima and Nagasaki were the places, which made the Japanese learn, realize, exactly know and experience as to what a war is and what its effects are. They genuinely felt the need of peace for humanity and humans and even for every form of life to survive. Except them no one else could comprehend the disaster and the long lasting upset, a war can bring.  Rest of the world that caused such nuclear attacks, supported or abetted the same was in a state of glory of victory; completely devoid of the capability to understand the value of peace. If all the countries at war during World War-II would have experienced similar nuclear attacks on two mega cities of each of them, entire world would have sought forbid from waging war till they could forget that, I believe.

In the frenzy of glory of victory what we learnt was inventing more disastrous weapons and their carriers. We tried to use the space as well, as our future points to attack the humans and every living creature on earth.

Despite establishment of the UNO, we could not control wars among various countries of the world and finally became a witness to the historical event of dissolution of the USSR which was unique in its nature and could not be conceived in ordinary course coupled with many other geo-political changes in the global map. We thus said farewell to the 20th century in serious blood shed, smokes and fire. 

The new century emerged at the horizon though with the repetition of earlier massacres but with a newly added threat of terror. Now we got another enemy and thus another front to fight. Terror and war against terror became our priority.

It appears that we humans have learnt only one lesson throughout the history of mankind as to how to kill each other on any pretext of our choice. We always gave gifts of blood, disaster, distress, disabled persons, dead bodies and dead-like females to each other without appreciating the equality and parity of the right of all of us to survival, honour and property.

Can’t we still learn a lesson?

On the completion of 100 years to the initiation of World War-I, it is the right time to give a slap to the face of war, the war lords and the war mindset. I PROPOSE THAT ON THIS OCCASION, WE MUST OBSERVE THE PERIOD FROM 28TH JULY 2014 TO 27TH JULY 2015 OR THE ENTIRE NEXT CALENDAR YEAR 2015 (FROM 1ST JANUARY TO 31ST DECEMBER) AS “NO WAR YEAR”. We should give the humans and the humanity this special and well pondered gift of peace as a token of feeling of being ashamed of what we and our ancestors did to them!

I appeal the UN Secretary General to give a thought to this humble submission and convince its members and the entire world to refrain from waging war by a sovereign against another sovereign for at least one year;

I appeal to all Heads of the States to maintain peace and not to wage war against any country for a very small period of one year that makes almost a zero fraction to human history;

I also appeal to all ethnic, racial, sectarian and religious warriors to stop blood shed for just one year as requested above.


Will any one like to reply to our last 100 years of disaster and sabotage with and through this message of actual peace?


I am repeating this post with the request to viewers to please post your comments or send feed back.